حکومت کی جانب سے وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائے گا۔ تیزی سے فروخت ہونے والی صارف اشیاء (ایف ایم سی جی) بنانے والی کمپنیاں ایک مجوزہ اقدام پر تشویش کا اظہار کررہی ہیں جس کے تحت بسکٹ، مٹھائیاں، جوس اور تیار شدہ کھانوں سمیت مختلف پروسیسڈ فوڈ آئٹمز پر 5 سے 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

صنعتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام صارفین، صنعت کاروں اور مجموعی معیشت پر دور رس اور نقصان دہ اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

اگرچہ حکومت مبینہ طور پر ایکسائز ٹیکس کے ذریعے نئے مالی وسائل تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے تاہم صنعت کا کہنا ہے کہ یہ تجویز مناسب مشاورت اور معاشی جانچ کے بغیر پیش کی جارہی ہے اور اس کے نتیجے میں فائدے کے بجائے زیادہ نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔

پروسیسڈ اور پیک شدہ غذائی اشیاء — بالخصوص بسکٹ — لاکھوں کم آمدنی والے پاکستانی گھرانوں کی روزمرہ خوراک کا اہم حصہ ہیں۔ فور سائٹ ہاؤس ہولڈ پینل ریسرچ کے مطابق بسکٹ کی مجموعی کھپت کا تقریباً 70 فیصد حصہ سماجی و اقتصادی طبقات سی، ڈی اور ای سے آتا ہے جب کہ دیہی علاقوں میں یہ کھپت کل حجم کے تقریباً 50 فیصد تک پہنچ جاتی ہے — جو اس شعبے کی عوامی اہمیت اور وسیع رسائی کو واضح کرتی ہے۔

ایک صنعتکار کے مطابق ایکسائز ڈیوٹی کا بوجھ ممکنہ طور پر صارفین پر منتقل کر دیا جائے گا جس سے روزمرہ استعمال کی بنیادی اشیاء مزید مہنگی ہو جائیں گی، ایسے ملک میں جہاں خوراک کی مہنگائی پہلے ہی کم آمدنی والے گھرانوں پر بوجھ ڈال رہی ہے، اس قسم کا ٹیکس سب سے زیادہ کمزور طبقے کو متاثر کریگا۔

پاکستان میں بسکٹ توانائی کا سستا اور آسان ذریعہ ہونے کے باعث ہر طبقے میں بالخصوص کم آمدنی والے گھرانوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں جہاں یہ اکثر مکمل کھانے کا متبادل بھی بن جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان روزمرہ ضروری اشیاء کو لگژری مصنوعات کے زمرے میں ڈال کر سِن ٹیکس طرز کی ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنا نہ صرف ان کی سماجی و معاشی اہمیت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے بلکہ غریب طبقے کے لیے بنیادی غذائی ضروریات تک رسائی کو بھی مزید مشکل بنا دے گا۔

پاکستان کے تازہ ترین اقتصادی جائزہ 2024-25 کے مطابق، ملک کی فی کس آمدنی میں بہتری ضرور آئی ہے مگر یہ اب بھی عالمی سطح پر کم ترین ممالک میں شامل ہے اور صرف 1,824 ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے عبوری تخمینے کے مطابق اس کی فی کس آمدنی تقریباً 2,800 ڈالر ہے — یعنی پاکستان سے لگ بھگ 1,000 ڈالر زیادہ۔ اس تناظر میں ایسے ٹیکسیشن اقدامات ملک کی بڑی آبادی کے درپیش معاشی حقائق کی عکاسی کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

Comments

200 حروف