پاکستان کی سٹی فارما اور مارٹن ڈاؤ کی بائیوٹیک مصنوعات کے لیے چینی فرم کے ساتھ شراکت داری
پاکستان کی دوا ساز کمپنیوں بشمول سٹی فارما لمیٹڈ (سی پی ایچ ایل)، مارٹن ڈاؤ اور چینی دوا ساز کمپنی کنگبو فارماٹیک نے نئی بایوٹیک / حیاتیاتی مصنوعات کی تیاری اورصنعتی پیمانے پرپیداوار کے لئے مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں۔
سی پی ایچ ایل نے منگل کے روز پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کو ایک نوٹس میں کہا ہے کہ اس شراکت داری کا مقصد مقامی استعمال اور برآمد دونوں کے لئے ان ضروری مصنوعات کی مقامی پیداوار کو ممکن بنا کر درآمدی ادویات پر پاکستان کا انحصار کم کرنا ہے۔
سی پی ایچ ایل نے کہا کہ ایم او یو کے تحت تینوں دواساز کمپنیاں مشترکہ طور پر انڈونیشیا میں جدید ترین مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کریں گے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی مارکیٹ اور بین الاقوامی صارفین دونوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اسٹریٹجک طور پر یہ پلانٹ اعلی ٰ ترین عالمی معیار کے اصولوں پر کاربند ہوگا۔ یہ تعاون نہ صرف پاکستان کی دواسازی کی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا بلکہ عالمی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔
سٹی فارما نے انکشاف کیا کہ کنگبو فارماٹیک اس شراکت داری کے تکنیکی پہلوؤں کی قیادت کرے گا اور مینوفیکچرنگ پلانٹ کے قیام کی نگرانی کرے گا۔
کمپنی نے کہا کہ سٹی فارما اور مارٹن ڈاؤ کے تعاون سے کنگبو برآمدات کے نئے مواقع پیدا کرنے میں بھی مدد کرے گا اور بین الاقوامی مارکیٹوں میں مصنوعات کی رسائی کو وسعت دے گا۔
سٹی فارما نے کہا کہ تازہ ترین اقدام اس کے وژن کے مطابق ہے جس کا مقصد پاکستان میں جدید حیاتیاتی اور بائیو ٹیکنالوجی کی مصنوعات متعارف کرانا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقامی سطح پر مصنوعات کی تیاری سے صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں کمی آئے گی، درآمدات پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی اور عالمی فارماسیوٹیکل مارکیٹ میں پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔
مزید برآں توقع ہے کہ اس شراکت داری سے ادویات کی لاگت میں کمی ہوگی، غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت اور برآمدات کے ذریعے آمدنی کے نئے ذرائع کھول کر مثبت معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔
چند روز قبل سی پی ایچ ایل نے انڈونیشیا کے ایک دوا ساز ادارے مرسی فارما کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کا اعلان کیا تھا تاکہ ایکٹو فارماسیوٹیکل انگریڈیئنٹ (اے پی آئی) مینوفیکچرنگ تنصیبات قائم کی جا سکیں اور انڈونیشیا میں اپنی نیوٹراسوٹیکل مارکیٹ کو بڑھایا جا سکے۔
Comments