غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے حملوں میں گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران کم ازکم 120 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ شمالی علاقے میں واقع ایک اسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں طبی عملہ زخمی ہوا ہے جبکہ سازوسامان کو نقصان پہنچا۔

فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے 7 افراد بھی شامل ہیں، غزہ شہر کے مضافاتی علاقے زیتون میں رات گئے ان کے گھر پر بمباری کی گئی تھی۔ دیگر شہادتیں وسطی اور جنوبی غزہ میں ہوئیں۔

اس کے ساتھ ہی اسرائیلی افواج نے غزہ شمالی کنارے پر اپنی دراندازی اور بمباری مزید بڑھا دی ہے جو گزشتہ ماہ کے شروع سے اب تک کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد حماس کے جنگجوؤں کو علاقے میں حملے کرنے اور دوبارہ منظم ہونے سے روکنا ہے۔ دوسری جانب مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ اس آپریشن کا مقصد علاقے کی ایک محفوظ آبادی (بفرزون) کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے تاہم اسرائیل اس کی تردید کرتا ہے۔

غزہ کے شمالی کنارے پر واقع 3 طبی مراکز میں سے ایک کمال ادوان اسپتال کے ڈائریکٹرحسام ابو صفیہ نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے جاری بمباری کا مقصد اسپتال کے عملے کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنا ہے۔

حسام ابو صفیہ نے ایک بیان میں کہا کہ کل (جمعہ کو) دوپہر سے نصف رات تک ایمرجنسی اوراستقبالیہ کے قریبی مقام پر وقفے وقفے سے بمباری کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان حملوں میں ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت عملے کے 12 افراد زخمی ہوئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حملے سے جنریٹر، آکسیجن سپلائی نیٹ ورک اور پانی کی فراہمی نظام کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔

ابو صفیہ کے بیان پرتبصرہ کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ ابتدائی جائزے کے بعد اسے کمال ادون اسپتال کے علاقے میں حملے کے بارے میں علم نہیں تھا۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ اسرائیلی فوج شہریوں کونقصان سے بچانے کے لئے ہرممکن کوشش کررہی ہے ۔

اسرائیل یہ الزامات عائد کرتا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار تنظیم حماس اسپتالوں اور شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے اوراس دعوے کی حمایت میں اس نے وڈیوز اور تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ دوسری جانب حماس نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ شہری آبادی یا تنصیبات کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتی۔

فسلطینی حکام کے مطابق غزہ میں اسرائیل کی 13 ماہ سے جاری فوجی کارروائی کے دوران کم از کم 44 ہزار سے زائد افراد شہید اور تقریباً تمام آبادی ایک بار بے گھرہوچکی ہے۔

جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی کئی ماہ کی کوششوں میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے اورمذاکرات اب تعطل کا شکارہیں، قطر نے اس وقت تک اپنی کوششیں معطل کردی ہیں جب تک کہ فریقین رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوجاتے۔

حماس ایک ایسا معاہدہ چاہتی ہے جس سے جنگ کا خاتمہ ہو جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے کہا ہے کہ حماس کے خاتمے کے بعد ہی جنگ ختم ہوسکتی ہے۔

Comments

200 حروف