پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی جانب سے اسلام آباد کی طرف پرامن مارچ قرار دیا جانے والے احتجاج، جس کا مقصد دیگر مطالبات کے علاوہ اپنے قائد عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرنا تھا، میں کچھ بھی پرامن ثابت نہ ہوا۔

5 اور 6 اکتوبر 2024 کو وفاقی دارالحکومت عملی طور پر میدان جنگ بنا رہا۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ پی ٹی آئی کے مظاہرین، خصوصاً خیبر پختونخوا (کے پی) سے آنے والے، جن کی قیادت وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور کر رہے تھے، غلیلیں، کنکر، پتھر، آنسو گیس کے شیل اور دیگر اشیاء کے ساتھ، تشویشناک طور پر، ہتھیاروں سے لیس ہو کر آئے تھے۔

آخری بات خیبر پختونخوا (کے پی) کے سرکاری ذرائع سے سامنے آئی، جہاں سے گاڑیاں، ریسکیو ایمبولینسیں اور حتیٰ کہ سڑکوں پر موجود رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے بھاری مشینری بھی فراہم کی گئی۔ ان مسلح مظاہرین کے تصادم کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور 31 زخمی ہوئے۔

مظاہرین میں اگر کوئی جانی نقصان ہواہے تو اس کی اطلاع اب تک سامنے نہیں آئی، تاہم اسلام آباد کی سڑکوں پر ہونے والی شدید جھڑپوں کے دوران، جو ڈی چوک کی جانب تھیں اور مظاہرین کی مطلوبہ منزل بھی تھی، اور یقینی طور پر اس کے بعد پولیس نے ایک ہزار سے زائد پی ٹی آئی حامیوں کو گرفتار کیا جن میں پولیس کے مطابق بعض افغان باشندے اور خیبر پختونخوا کے متعدد سادہ لباس اہلکار بھی شامل ہیں۔ آئی جی اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین (یا فسادیوں؟) نے وفاقی حکومت کے اثاثوں، بشمول پولیس کی گاڑیوں وغیرہ، کو 154 ملین روپے کا نقصان پہنچایا۔

جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، جب حالات قابو میں آئے اور سڑکیں دوبارہ قابلِ گزر ہوئیں تو اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی پر بھرپور تنقید کی۔ حکومت نے پی ٹی آئی پر متعدد الزامات لگائے جن میں اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے آئندہ سربراہی اجلاس کی تیاریوں میں خلل ڈالنے کی کوشش، اس وقت ملک میں موجود ملائیشیا کے وزیر اعظم کے دورے کے دوران پاکستان ساکھ خراب کرنے کی کوشش، بدنام زمانہ 9 مئی 2023 کے حملے کو دہرانے، ملک کی معاشی استحکام کی پیشرفت میں رکاوٹ ڈالنے اور حتیٰ کہ خوش فہمی کے ساتھ انقلاب لانے کی کوشش شامل ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی جی اسلام آباد پولیس کے بیان کے مطابق ریکارڈ 8,800 پولیس اہلکار کسی بھی بدامنی کو روکنے کے لیے تعینات کیے گئے تھے جبکہ رینجرز اور فوجی دستے بھی ضرورت پڑنے پر تیار تھے۔ یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت نے اس واقعے کو، اسلام آباد پر حملہ نہ سہی، لیکن یلغار تصور کرتے ہوئے کسی بھی خطرے سے بچنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے۔

وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک بار پھر اپنا ’غائب‘ ہونے کا کرتب دکھایا۔ پولیس نے اسلام آباد میں کے پی ہاؤس پر چھاپہ مارا جہاں گنڈاپور کے بارے میں خیال کیا گیا کہ وہ وہاں موجود تھے لیکن حیران کن طور پر اسے پکڑنے میں پولیس ناکام رہی۔

چونکہ گنڈاپور رات بھر ’غائب‘ اور رابطہ میں نہیں رہے (جیسا کہ انہوں نے پچھلی بار بھی کیا تھا) اس سے پی ٹی آئی کی جانب سے مطالبات کا سلسلہ شروع ہو گیا کہ انہیں پیش کیا جائے ورنہ عدالتوں وغیرہ سے ان کی بازیابی کے لیے رجوع کیا جائے گا اور پھر، دیکھتے ہی دیکھتے، ہمارے اپنے ’زورو‘ اگلے دن خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں نمودار ہوئے اور اپنی پارٹی اور ایوان کو وفاقی حکومت کے خلاف اپنی شعلہ بیان تقریر سے محظوظ کیا۔ معذرت کے ساتھ، یہ ’غائب ہو جانے‘ کا کرتب کچھ زیادہ ہی استعمال ہو چکا ہے جس سے گنڈا پور اور ان کے ان واقعات میں کردار کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں۔

عملی طور پر علی امین گنڈا پور خیبر پختونخوا کو وفاقی حکومت اور پنجاب کے خلاف کھڑا کر چکے ہیں لیکن وہ ان مذموم حربوں کو مظلومیت کی ایک لمبی فہرست میں چھپاتے ہیں۔

پی ٹی آئی کارکنوں اور حامیوں کی متوقع گرفتاریوں، پولیس کی جانب سے تعزیرات پاکستان اور انسداد دہشتگردی قوانین کے تحت بے شمار مقدمات کے اندراج کے دوران کچھ سوالات بدستور جواب طلب ہیں: پی ٹی آئی آخر چاہتی کیا ہے؟ اس کا ہدف کیا ہے؟ اس کے حربے کس حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں؟ کیا واقعی کوئی حکمت عملی موجود ہے یا یہ محض بڑھتی ہوئی مایوسی کا مظہر ہے؟

یہ بات اتنی غیر حقیقی نہیں جتنی کہ لگتی ہے کیونکہ پی ٹی آئی اور اس کی انتشار پسند مہم کے خلاف رویے میں واضح سختی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ مہم جس کا مقصد اگر کچھ اور نہیں تو بظاہر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معمولات بحال نہ رہیں، یوں حکومت کی سیاسی استحکام کے ذریعے معاشی بحالی کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ سختی حکومت سے لے کر اس کے مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے حامیوں تک پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا صبر کا دامن چھوڑنا لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے آغاز کا سبب بن سکتا ہے جس میں عمران خان کو بھی شامل کیے جانے کا امکان ہے۔

آنے والے دنوں میں جو بھی ہو، ایک بات بالکل واضح ہے۔ ملک امن اور استحکام کے دائر میں داخل نہیں ہوپائے گا جو سیاسی ساکھ میں بہتری کے ساتھ (جو کہ اس حکومت کے حوالے سے ناپید ہے) معاشی ترقی کی طرف لے جائے گا۔ مستقبل قریب میں انتشار اور تنازعات ہی نظر آرہے ہیں۔ ہمارے درمیان جو صاحبانِ فکر باقی رہ گئے ہیں (جی ہاں، ان افراد کی تعداد تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے) وہ بڑھتی ہوئی تشویش کا شکار ہیں کہ ملک ایک ایسے تاریک گڑھے کی طرف بڑھ رہا ہے جس میں روشنی بھی داخل نہیں ہوسکتی۔

Rashed Rahman

[email protected] , rashed-rahman.blogspot.com

Comments

200 حروف